سندھ ایک عظیم سیاسی اثاثے سے محروم۔
سیاست میں اپنے اصولوں کے تحت اپنے عروج اور عظمت کو برقرارکھنے والا سابق صوبائی وزیر اور رکن صوبائی اسیمبلی سندھ سید حاجی علی مردان شاھ 63 سالوں کی عمر میں انتقال کرگئے،
علی مردان شاھ کا عمرکوٹ کے ایک گاؤں کھاروڑو سید میں سید میان شاھ کے گھر جنم ہوا، تعلیم کے ساتھ ساتھ زمینداری کا بھی شوق تھا، شاھ صاحب نے 1979 میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز بطور میمبر ضلع کاؤنسل تھرپارکر (میرپورخاص، تھرپارکر اور عمرکوٹ پر مشتمل ضلع) کے کیا جب کہ اس کے بعد دو بار 1983 اور 1987 میں ضلع کاؤنسل کے ممبر اور وائس چیئرمیں منتخب ہوئے۔
1988
میں پہلی مرتبہ پ پ کے ٹکٹ سے ممبر صوبائی اسمبلی سندھ منتخب ہوئے ،
1990
میں سابق وزیراعلی سندھ مرحوم جام صادق علی نے پ پ سے الگ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف جیلوں میں قید کروایا مگر علی مردان شاھ نے پاکستان کی عظیم لیڈر محترمہ شہید بےنظیر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ زندگی کی آخری سانس تک ساتھ نبھانے کا وعدہ جو کیا تھا۔
شاھ صاحب 6 بار رکن صوبائی اسیمبلی رہنے کے ساتھ ساتھ 2 بار پاپولیشن ویلفیئر اور محکمہ فشریز کے صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔
علی مردان شاھ ایک نہ ڈر اور اصول پرست سنجیدہ سیاستدان تھے جو اپنے خلاف انگنت سازشیں اور لب کشائیاں تو برداشت کر سکتے تھے مگر اپنے خطے کے کسی بھی باسی کی تکلیف نہیں پھر چائے وہ کوئی بھی ہو، عمرکوٹ کے ہر اک فرد کو اپنے خطے کے امن و بقا کی ضمانت دینا اور اس پر پورا اترنے کہ کوشش کرنا صرف اور صرف سید خاندان کی پرمپراہ کا حصہ تھا جسے مرتے دم تک اچھے سے نبھایا۔
عمرکوٹ کی ہر برادری کی خیریت کی جانکاری رکھنا اور ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا ان کی عادتوں کا حصہ تھا جو کہ نا صرف انکے حمایتوں کو ان کی طرف متوجہ کرتا تھا بلکہ ان کی مخالفین کو بھی پسند تھا شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی بات منوانے کا ہنر رکھتے تھے،
شاھ صاحب کے زیادہ تر فیصلے اصولوں کے بنیاد پر ہی رہیں اس لئے جو کہتے تھے وہ کر کے ہی رہتے تھے، عمرکوٹ کی اقلیت برادری کے تحفظ کی ضمانت بھی اپنے سر لے رکھی تھی شاید اسی لئے ہی وہ انکی آرتیاں اتارتے اور تاج پہناتے پھر مخالفوں نے چاہے اس کوئی بھی رنگ دیے ہوں مگر یہاں بسنے والوں کی ان سے اور ان کی اپنی عوام سے خلوص بھری عقیدت قابل تعریف تھی۔
شاھ صاحب کا اچانک انتقال عمرکوٹ کی تاریخ کا ایک بڑا خال ہے جسے بھرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
No comments: