موھن میگھواڑ کی غُمشدگی آج تک ایک سوال



کس قدر جھلکتا تھا فخر اُس کے  اظہارات میں
جس باپ نے پیٹ باندھ پڑھایا تھا اپنے بچے کو۔

عمرکوٹ کے ایک غریب مزدور جلال میگھواڑ کے گھر پیدا ہونے والا موھن میگھواڑ جب یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں پاس ہوا تو اُس کے والد جلال کی انداز-بات میں ایک فخر کا آبشار جھلکتا تھا۔
جلال نے ناجانے کتنے ہی تکلیفوں کو نظرانداز کرکے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بیٹے موھن کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں کوئی کثر نا چھوڑنے کی ٹھان لی اور آخرکار اُس کا بیٹا پاکستان کے ناموار انجینیرنگ یونیورسٹی (مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالاجی جامشورو) کی داخلہ ٹیسٹ میں بڑے اسکور سے پاس ہوگیا۔
ہزاروں اُمیدیں اور خواب لئے جب موھن اپنے والد کے خوابوں کی تعمیل کرنے کے لیے تعلعمی سفر کی طرف گامزن ہونے لگا تو کُچھ مہینے ہی نا بیتے اور موھن تعلیمی درسگاہ سے کیسے غائب ہوگیا
 اگسٹ 2013 کو ایک بجے سے موھن کی آج تک کُچھ خبر نہیں اسے زمین کھاگئی یا آسماں نگل گیا۔
 والد جلال کے کہینے کے مطابق "ہم غریبوں کا گُذر سفر روز کی کمائی پر چلتا ہے ہماری کسی سے نا کوئی جان پہچان تھی اور نا کوئی دُشمنی" جلال نے قریبی پولیس اسٹیشن کوٹری پر ایف آئی آر درج کروائی، اُس نے یونیورسٹی انتظامیہ سے لے کر ریاستی ادارون تک، انسانی حقوق کی پاسبانی کرنے والے فلحکاروں سے لے کر الیکشن کے دوران جھوٹے وعدے کرنے والوں تک ہر ایک کا دروازہ کھڑکھڑا کر اپنے بیٹے کی بازیابی کی بھیک مانگتا رہا پر کسی نے بھی جھوٹی تسلیاں کے علاوہ کُچھ نا دیا۔
ہزاروں شاگردوں نے متعد ہوکر موھن کی بازیابی کے لئے احتجاج کئے پر ریاست کی جانب سے کوئی بھی ردعمل نہیں دکھایا گیا۔
ہزار جھوٹی تسلیاں کے آدھار پر جلال کا آج تک حوصلہ کم نا ہوا اور آج تک اپنے بڑھاپے کے سہارے اپنے بیٹے کی بازیابی کی آس لئے پچھلے تیس دِن سے عمرکوٹ پریس کلب کے آگے بھوکھ ہرتال پے بیٹھا ہے پر کسی بھی عوام کے منتخب کئے نمائندے نے آکر حال پوچھنا بھی گوارا نا سمجھا یہاں تک کے جلال کی برادری کی نمائیندگی کرنے والا بھی نظر انداز کر رہا ہے۔
پچھلے 30 دن سے عمرکوٹ پریس کلب سامنے اپنے بیٹے کو دیکھنے کی منتظر نگاہیں ہر آنے جانے والے شخص کو اُداس ادا سے اس طرح دیکھتی ہیں کہ کوئی آفاقی قوت آکر اسے کہے گی کہ "میں تمہارے بیٹے کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں، میں واپس لاہونگا تمہارے سہارے کو"
میری گُذارش ہے سندھ کے تمام باشعور شاگردوں اور ناجوانوں کو برائے مہربانی کر کے موھن کی بازیابی کے لئے اپنا فرض سرانجام دیں کیونکہ یہ ایک جلال کے بیٹے کی بات نہیں ہے پر یہ ایک سندھ کے شاگرد کی تحفُظ کی بات ہے۔
ہماری جُستجو اور کوششوں کی آواز ضرور اُن اعلیٰ اعوانوں میں بیٹھے ہوئے بہروں کو سُنائی دے گی، اُن کے ضمیر کو ضرور جھنجھوڑے گی اور احساس دلائے گی کہ اولاد اُن کے بھی ہیں۔

بھرت بنسی مالھی

No comments:

Powered by Blogger.